مسجد خواجہ گلشن مہدی پٹنم میں صدر مرکزی مجلس قادریہ کا خطاب
حیدرآباد 15ڈسمبر (راست) اللہ نے تمام انسانیت کو زندگی بخشی ہے اسکی زندگی کی ابتداء دنیا میں پیدا ہونا اور اسکی انتہا موت ہے ، انسان پر موت کو طاری کرنے کا مقصد انسان کو جانچنا ہے کہ اس نے دنیا میں قیام کے دوران اپنے اعمال واقوال کے ذریعے اپنے لئے جنت کو سنوارا ہے یا جہنم کی آگ کو بھڑکایا ہے ۔جنت کو سنوارنے والے اعمال کئے ہیں تو موت اس انسان کے لئے رحمت اگر نہیں تو اس پر موت کا آنا زحمت ہے۔نبیرۂ حضرت زرد علی شاہ مہاجر مکی مولانا سید محمد علی قادری الہاشمی ممشاد پاشاہ صدر مرکزی مجلس قادریہ نے جامع مسجد خواجہ گلشن ، مہدی پٹنم میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا ۔ مولانا ممشاد پاشاہ نے کہا کہ اللہ نے موت کو دیگر مخلوقات کی طرح حکم کن سے وجود بخشا ہے وہ ہمیشہ انسان کی نظروں سے پوشیدہ رہتی ہے حکم الٰہی کی منتظر رہتی ہے حکم ملنے پر پلک جھپکنے کی بھی دیر نہیں کرتی جس طرف رخ کرتی ہے کہرام مچادیتی ہے ۔اللہ نے موت کا ذائقہ رکھا ہے اب وہ کیسا ہے اسکا دارومدار انسانی اعمال پر منحصر ہوگا البتہ موت کے
ذائقے سے کوئی بھی کسی صورت نہیں بچ سکتا ۔موت کا وقت مقرر ہے نہ جانے کب آئے گی ،جو سانس اندر ہے اسکے باہر آنے کا کوئی بھروسہ نہیں اور جو سانس باہر ہے اسکے اندر آنے کا بھروسہ نہیں ،موت کی یاد انسان کو گناہوں سے دور رکھتی ہے اور موت کو یاد کرتے رہنا چاہئے کیونکہ جو شخص موت کو بھول جاتا ہے وہ ہر قسم کے گناہ کا ارتکاب کرسکتا ہے ۔حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا لذتیں زائل اور ختم کردینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرو۔حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضوراقدس ؐ کی خدمت میں عالیہ میں سب سے زیادہ سمجھدار اور سب سے زیادہ محتاط آدمی سے متعلق دریافت کیا گیا توآپ نے فرمایا جو لوگ موت کو سب سے زیادہ یاد کرنے والے اور موت کے لئے سب سے زیادہ تیاری کرنے والے ہوں۔موت کو یاد کرنا تما م روحانی امراض کا علاج ہے اور گناہوں سے بچے رہنے کا بہترین ذریعہ ہے کہ موت کو یاد رکھ کر نہ انسان تکبر کر سکتا ہے نہ حسد کرسکتا ہے اور نہ ہی کسب حرام میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ آج دین دار طبقہ بھی غفلت برت رہا ہے اور یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ موضوع عام لوگوں کے لئے ہے یا اسکی ضرورت اسے ہے جس نے نئی نئی دینداری اختیار کی ہو۔